شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب
مشرقی الغوطہ کے علاقے دوما میں "جیش الاسلام" نامی ایک حکومت مخالف تنظیم
نے یرغمال بنائے گئے سرکاری فوجیوں اور بشارالاسد کے حامیوں کو انسانی ڈھال کے طور
پر استعمال کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
شام میں انسانی حقوق کی صورت
حال پر نظر رکھنے والے ادارے"سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائیٹس" کے ڈائریکٹر
رامی عبدالرحمان نے انٹرنیٹ پر پوسٹ کی گئی ایک فوٹیج کا حوالہ دیا جس میں "جیش
الاسلام" نامی ایک تنظیم کے ہاں یرغمال بنائے گئے شامی فوجیوں اور بشارالاسد کے
حامی مرد وخواتین کو آہنی پنجروں میں بند دوما کی سڑکوں پر ٹرکوں پر گھماتے دکھایا
ہے۔ باغیوں کے اس اقدام کا مقصد شامی فوج کی جانب سے دوما میں مزید بمباری روکنا ہے۔
فوٹیج میں "جیش الاسلام"
کے ایک جنگجو کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ آہنی پنجروں میں بند حکومت کے حامیوں کو
کھلی سڑکوں پر پھرانے کا مقصد شامی فوج کی علاقے میں بمباری رکوانا ہے۔
دوما کے علاقے میں ایسے دسیوں
پنجرے جگہ جگہ پر موجود ہیں اور کچھ پنجروں کو ٹرکوں پر لادیا گیا ہے جو دوما کی سڑکوں
پر چلتے رہتے ہیں۔ ان میں پانچ سے آٹھ افراد کو قید کیا گیا ہے۔ قیدیوں میں اسدی فوجی
اور خواتین بھی شامل ہیں۔
قیدیوں میں ایک شامی فوجی جو
خود کو کرنل کے عہدے کا افسر بتاتا ہے کا کہنا ہے کہ ہم تین سال سے جیش الاسلام کی
قید میں ہیں۔ ہم شامی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ دوما میں شہریوں پر بمباری نہ کرے۔
خیال رہے کہ جیش الاسلام نامی
اس تنظیم نے شامی فوجیوں اور حکومت کے دسیوں حامیوں کو شمال مشرقی غوطہ کے دوما قصبے
میں عدرا العمالیہ کےمقام سے دو سال قبل یرغمال بنایا تھا۔ قیدیوں کو ڈھال کے طور پر
ایک ایسے وقت میں استعمال کیا جانے لگا ہے جب گذشتہ جمعہ کو شامی فوج نے دوما کے ایک
مصروف بازار میں بمباری کرکے 70 افراد کو ہلاک اور 550 سے زائد کو زخمی کر دیا تھا۔
0 comments:
Post a Comment