عرب ممالک کی متحدہ فوج کاعملی طاقت کے استعمال کا قانونی دائرہ اختیار
عرب مالک کی متحدہ فوج
کے قانونی دائرہ اختیار کے بارے میں بات کرتے ہوئے مصری تجزیہ نگار اور عالمی
قانون کے ماہر ڈاکٹر ایمن سلامہ کا کہنا تھا کہ متحدہ فوج کی تشکیل کے بعد اس کی
آئینی ذمہ داریوں کے تعین میں عرب لیگ کے ممبر ممالک باہم صلاح مشورے سے فیصلہ
کریں گےمتحدہ عرب فوج کا اپنا ایک آئینی اور قانونی طریقہ کار وضع کیا جائے گا
جس کے اندر رہتے ہوئے وہ کسی ملک، کسی علاقے، شہر یا دارالحکومت میں اپنی کارروائی
کرے گیمتحدہ عرب فوج کے علاوہ کسی بھی ملک کو درپیش خطرے کے تناظرمیں دوسرے
ملک اپنی ذاتی فوج کو استعمال کرنے کا بھی حق رکھتے ہیں تاہم ایسا کرنا ان کی اپنی
منشاء پر منحصر ہوگا کہ وہ متحدہ فوج کے ساتھ ساتھ اپنی فوج کو بھی کوئی ذمہ داری
سونپنا مناسب سمجھتے ہیں یا نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ متحدہ عرب فوج اور عرب ممالک
کے درمیان عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل رابطے کا ذریعہ ہوں گے عرب لیگ ہی اس امر کا
تعین کرے گی کہ آیا اسے کس ملک میں کس تنظیم کے خلاف اور کب کارروائی کرنا ہے
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر سلامہ کا کہنا تھا کہ عرب ممالک کی متحدہ
فوج کی تشکیل کا فیصلہ عالمی قانون کی رو سے غلط نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر
میں شامل آرٹیکل52 کے تحت اس کی اجازت دی گئی ہےاقوام متحدہ کے اصول کے تحت
دنیا میں مختلف ممالک کا کوئی بھی بلاک اپنی داخلی سلامتی کی خاطر اس طرح کا فوجی
اتحاد تشکیل دے سکتا ہے اس طرح پر اب تک دنیا میں مختلف اتحاد وجود میں آچکے ہیں ان میں افریقی الائنس کا قیام بھی شامل ہےاس فوجی اتحاد کا مقصد مغربی افریقا
میں ہونے والی خانہ جنگی کا خاتمہ کرنا تھا
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی بھی عرب ملک میں کارروائی
متحدہ فوج از خود نہیں کرے گی بلکہ پہلے متعلقہ ملک کی جانب سے مدد کی درخواست کی
جائے گی۔ اس کے عرب لیگ کےاجلاس میں اس درخواست کی نوعیت پرغور کے بعد فیصلہ کیا
جائے گا۔
link
0 comments:
Post a Comment