ایمین سیگیریگا نے اس
روز سے گولیوں کے تین خول سنبھال کر رکھے ہوئے جس روز ان کی بیٹی پر گولی چلائی
گئی تھی۔ چوتھی گولی اُس کی 10 سالہ بیٹی سیمائل کی فوری ہلاکت کا سبب بنی۔
غم اور سکتے کے عالم
میں ایمین اپنے باغیچے میں بیٹھی ہے۔ اُس کی بیٹی کی ایک تصویر اس کے لباس پر جڑی
ہوئی ہے۔
جولائی میں کردوں کی
عسکریت پسند تنظیم ’پی کے کے‘ اور ترکی کی حکومت کے درمیان دو سال کی طویل جنگ
بندی کے معاہدہ کے ناکام ہونے کے بعد سے جیزرہ شہر کو بدترین فسادات سامنا ہے۔
علاقے میں نو دن سے
کرفیو نافذ ہے سیمائل کے لیے کوئی ایمبولینس نہیں آئی اور اس کا خاندان اس کی
تدفین کے لیے اپنا گھر نہیں چھوڑ سکتا۔
ایمین کہتی ہیں’یہ گولی
نامعلوم مقام سے چلائی گئی۔ سیمائل مرکزی دروازے کے پاس تھی۔ میں اُس کا نام
پُکارتی ہوئی اُس کی جانب دوڑی۔ وہ چلائی ’ماما‘ اور پھر وہ مرگئی۔‘
ایمین نے بتایاکہ ’میں
صبح تک سیمائل کو اپنے ساتھ لگائے اور اُس کا ہاتھ پکڑے بیٹھی رہی۔‘
اس کے بعد میں اسے فریج
تک لے کر گئی اور میں نے اس کی لاش کو فرج میں رکھ دیا۔ کیوں کہ میں نہیں چاہتی
تھی کہ وہ گل سڑ جائے۔ ہم نے اُسے دو دنوں تک وہاں رکھا جب تک ہم اُسے دفنا نہیں
لیتے۔‘
0 comments:
Post a Comment