شام میں سابق صدر حافظ
الاسد کے دور حکومت میں 13 سال تک قید وبند کی صعوبتیں اٹھانے والے ایک لبنانی
شہری نے ایام اسیری کے دل دہلا دینے والے واقعات بتاتے ہوئے انکشاف کیا کہ شامی
فوجی قیدیوں کو کھانا دینے سے قبل ماکولات پر پیشاب کیا کرتے تھے اور بعد میں اسے
قیدیوں کو کھانے کے لئے پیش کرتے۔
العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق علی ابو دھن نامی سابق اسیر نے
بتایا کہ اس نے مجموعی طور پر 13 سال شام کی مختلف جیلوں میں قید کاٹی۔ ان میں سے
پانچ سال وہ تدمر جیل میں بھی رہا۔ یاد رہے کہ دو روز قبل دولت اسلامی
"داعش" نے تدمر شہر پر قبضے کے بعد اس جیل کا کنٹرول بھی سنھبال لیا ہے۔
ابو دھن کا کہنا تھا کہ اسے رہائی اس وقت ملی جب حافظ الاسد کی جگہ
ان کے بیٹے بشارالاسد نے حکومت سنھبالی۔ بشارالاسد نے جذبہ خیر سگالی اور لبنان کے
ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کے لیے بعض قیدیوں کی عام معافی کا اعلان کیا
تھا۔ اسی اعلان کے تحت ان کی رہائی بھی عمل میں لائی گئی۔
ایام اسیری کی سختیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ابو دھن نے کہا کہ
سنگین نوعیت کے مظالم کی وجہ سے تدمر جیل کو "شام کا جہنم زار" کہا جاتا
تھا۔ اس جیل میں حافظ الاسد کے کارندوں نے قیدیوں پر ہولناک مظالم ڈھاتے۔
"مجھے لبنانی فورسز پارٹی سے تعلق کے
الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ دوران حراست مجھے جیلوں میں فلسطینیوں کے وارڈز
میں بھی رکھا گیا۔ میری نظر میں تدمر جیل دنیا کی سب سے خوفناک جیل تھی، جہاں
قیدیوں پر ہر طرح کا تشدد کیا جاتا۔ تدمر جیل کے مرکزی داخلی دروازے پر"اندر
لاپتا اور باہر بچہ" کی عبارت تحریر کی گئی تھی۔ جب ہمیں اس جیل میں پہنچایا
گیا تو شامی انٹیلی جنس کے ایک اہلکار نے ہمارا استقبال ان الفاظ ساتھ کیا
کہ"جیل میں حافظ الاسد نے اللہ کے وجود کو منع کر دیا ہے، ہم [نعوذ باللہ]
خود خدا ہیں۔ زندگی بھی دیتے اور موت بھی۔ موت یہاں بہت آسان ہے اور زندگی مشکل
ہے"۔
0 comments:
Post a Comment