سعودی
عرب کی تعمیرو ترقی اور خوشحالی کے خلاف سرگرم عناصر کی جانب سے دہشت گردی کی تازہ
کارروائیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ اسلامی دنیا کے مرکز اس ملک میں دہشت گردی اور
انتہا پسندی کا سلسلہ ایک صدی پرمحیط ہے۔
دہشت گرد سال ہا سال
سے مختلف شکلوں اور ناموں کے ساتھ ظہور پذیر ہوتے اور مملکت کی ترقی کے درپے چلے آ
رہے ہیں۔ سعودی عرب میں انارکی اور پسماندگی کو فروغ دینے کے سوا ان کا اور کوئی
مقصد نہیں۔
سنہ 1970ء اور 1980ء
کے عشروں میں سعودی عرب کو افغان پلٹ عرب جنگجوئوں سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ ان
جنگجوئوں سے نمٹنا ایک بڑا اور پیچیدہ مسئلہ تھا۔ انہوں نے القاعدہ کی بنیاد رکھی
اوران کا پہلا ہدف سعودی عرب بنا۔ ریاض نے القاعدہ کے چیلنج سے بھی کامیابی سے
نمٹا۔
امریکی انٹیلی جنس کے
سابق چیف بروس ریڈل کے مطابق سنہ 2002ء میں القاعدہ نے سعودی سماج کا شیرازہ
بکھیرنے کے لیے دہشت گردی کی بدترین کارروائیاں شروع کیں۔ 12 مئی 2003ء کو سرزمین
حرمین میں دہشت گردانہ حملوں میں نہتے بچوں اور خواتین سمیت 16 شہری شہید اور 160
زخمی یا اپاہج ہوئے۔ دہشت گردی کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا اوراسی سال 08
نومبر کو دہشت گردوں نے ایک اور بڑا حملہ کیا۔
اگرچہ القاعدہ نے یمن
کو اپنی علاقائی سرگرمیوں کا مرکز بنایا مگر اس دہشت گردوں کی جانب سے سعودی عرب
کو نشانہ بنانے کی سازشیں جاری رہیں۔ سعودی عرب کی بہادر مسلح افواج نے دہشت گردوں
کی ہرسازش کو بری طرح ناکام بنا دیا۔
اس وقت سعودی عرب کو
صرف القاعدہ سے نہیں بلکہ چاروں طرف پھیلے دشمنوں کے خطرات کا سامنا ہے لیکن سعودی
عرب نہایت کامیابی کے ساتھ چومکھی لڑائی لڑ رہا ہے۔ سعودی عرب ایک ہی وقت میں یمن
کے اہل تشیع مسلک کے حوثیوں باغیوں، القاعدہ اور دولت اسلامیہ’’داعش‘‘ کے سنی دہشت
گردوں سے بلا تفریق نبرد آزما ہے۔
0 comments:
Post a Comment