امریکا نے ایران کے مزید نو اداروں اور شخصیات پر پابندیاں عاید کردی
ہیں۔ان پر مغربی پابندیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے ایران کی معاونت اور
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی حمایت کا الزام عاید کیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ کے حکام کا منگل کو جاری کردہ ایک بیان میں کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد ایران پر پہلے سے عاید پابندیوں کو تقویت دینا ہے جبکہ امریکا اور دوسرے ممالک کی ایران کے ساتھ جوہری تنازعے پر بات چیت بھی جاری رہے گی۔
امریکی محکمہ خزانہ کے انڈرسیکرٹری برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس ڈیوڈ کوہن نے بیان میں کہا ہے کہ ''مذاکرات کے دوران ہم جوہری تنازعے سے متعلق ایران پر نئی پابندیاں عاید نہیں کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہم اپنے الفاظ اور اعمال سے یہ واضح کرچکے ہیں کہ ہم موجودہ پابندیوں کا نفاذ جاری رکھیں گے''۔
ان میں سے پانچ افراد اور ایک ادارے کو ایرانی حکومت کی امریکی کرنسی کے حصول کے لیے معاونت کے الزام میں پابندیوں کا ہدف بنایا گیا ہے۔ان میں سابق ایرانی شہری حسین زیدی اور ایرانی سید کمال یاسینی پر الزام ہے کہ انھوں نے ایرانی رقوم کو مقامی کرنسی اور پھر اس کو امریکی ڈالرز میں تبدیل کرنے میں معاونت کی تھی۔پابندیوں کا شکار ہونے والے تیسرے شخص افغان شہری عزیزاللہ اسداللہ قلندری نے ان ڈالروں کو ایرانی حکومت تک پہنچایا تھا۔
حکام کے مطابق دو شخصیات عبداللہ سیفی ،تیمور عامری اور دبئی میں قائم بلفاسٹ جنرل ٹریڈنگ نے بھی امریکی کرنسی ایرانی حکومت تک پہنچائی تھی۔ایشیا بنک کی عہدے دار انہیتا ناصربیک نے بھی ایران کے مرکزی بنک یا ایرانی حکومت کی امریکی کرنسی نوٹ کے حصول میں مدد کی تھی۔
امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ دو کمپنیوں دوران سوفٹ وئیر ٹیکنالوجیز اور ابیسک پر ایران کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں معاون کردار پر پابندیاں عاید کی گئی ہیں۔ان پابندیوں کے تحت ان افراد اور اداروں کے امریکا میں موجود اثاثے منجمد کر لیے گئے ہیں اور وہ کسی امریکی سے کوئی لین دین کرسکیں گے اور نہ کسی کو مدد فراہم کرسکیں گے۔
امریکی محکمہ خزانہ کے حکام کا منگل کو جاری کردہ ایک بیان میں کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد ایران پر پہلے سے عاید پابندیوں کو تقویت دینا ہے جبکہ امریکا اور دوسرے ممالک کی ایران کے ساتھ جوہری تنازعے پر بات چیت بھی جاری رہے گی۔
امریکی محکمہ خزانہ کے انڈرسیکرٹری برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس ڈیوڈ کوہن نے بیان میں کہا ہے کہ ''مذاکرات کے دوران ہم جوہری تنازعے سے متعلق ایران پر نئی پابندیاں عاید نہیں کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہم اپنے الفاظ اور اعمال سے یہ واضح کرچکے ہیں کہ ہم موجودہ پابندیوں کا نفاذ جاری رکھیں گے''۔
ان میں سے پانچ افراد اور ایک ادارے کو ایرانی حکومت کی امریکی کرنسی کے حصول کے لیے معاونت کے الزام میں پابندیوں کا ہدف بنایا گیا ہے۔ان میں سابق ایرانی شہری حسین زیدی اور ایرانی سید کمال یاسینی پر الزام ہے کہ انھوں نے ایرانی رقوم کو مقامی کرنسی اور پھر اس کو امریکی ڈالرز میں تبدیل کرنے میں معاونت کی تھی۔پابندیوں کا شکار ہونے والے تیسرے شخص افغان شہری عزیزاللہ اسداللہ قلندری نے ان ڈالروں کو ایرانی حکومت تک پہنچایا تھا۔
حکام کے مطابق دو شخصیات عبداللہ سیفی ،تیمور عامری اور دبئی میں قائم بلفاسٹ جنرل ٹریڈنگ نے بھی امریکی کرنسی ایرانی حکومت تک پہنچائی تھی۔ایشیا بنک کی عہدے دار انہیتا ناصربیک نے بھی ایران کے مرکزی بنک یا ایرانی حکومت کی امریکی کرنسی نوٹ کے حصول میں مدد کی تھی۔
امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ دو کمپنیوں دوران سوفٹ وئیر ٹیکنالوجیز اور ابیسک پر ایران کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں معاون کردار پر پابندیاں عاید کی گئی ہیں۔ان پابندیوں کے تحت ان افراد اور اداروں کے امریکا میں موجود اثاثے منجمد کر لیے گئے ہیں اور وہ کسی امریکی سے کوئی لین دین کرسکیں گے اور نہ کسی کو مدد فراہم کرسکیں گے۔
0 comments:
Post a Comment